۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
مولانا صادق الوعد

حوزہ/ ماضی قریب سے جو کچھ عربستان سعودی میں ہو رہا ہے یقیناً درد آور بھی ہے اور مقام افسوس بھی؛ افسوسناک اس وجہ سے نہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے کسی اور اسلامی ملک میں نہیں ہو رہا ہے، در حالیکہ ترکی اور آذربائجان جیسے ملکوں کی حالت اس سے بھی ابتر ہے۔

تحریر: مولانا محمد صادق الوعد قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی| ماضی قریب سے جو کچھ عربستان سعودی میں ہو رہا ہے یقیناً درد آور بھی ہے اور مقام افسوس بھی؛ افسوسناک اس وجہ سے نہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے کسی اور اسلامی ملک میں نہیں ہو رہا ہے، در حالیکہ ترکی اور آذربائجان جیسے ملکوں کی حالت اس سے بھی ابتر ہے۔ افسوس اس وجہ سے ہے ام القراء اسلام، جسے بشریت کی ہدایت اور نجات کے واسطے خدا نے نزول وحی کے لئے انتخاب کیا تھا، مگر آج اس سر زمین کی در و دیوار سے عریانیت اور مرد و زن مشترکہ فیسٹیول بڑے دھوم دھام سے منعقد کیے جا رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی عرب کے ہمسائے میں دو اسلامی ملک فلسطین اور لبنان میں ایک سال سے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ فلسطین میں زن و بچے گھاس کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ظلم کی انتہا یہ کہ ان دونوں ملکوں کی چاروں اطراف کی آبادیوں کی کثرت انہی کی ہیں جو صبح وشام کلام خدا اور رسول اللہ پڑھا کرتی ہیں۔

سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جان واحد ہوا کرتے ہیں، جب ایک عضو بدن کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن میں درد سے تلملا اور درد کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔

دنیا کے گوشہ وکنار میں بسنے والے دردمند افراد یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ ان غیر اخلاقی اور غیر شرعی تہواروں کے انعقاد پر

آخر کار سلفی طبقہ اور شدت پسند مذہبی طبقہ کیوں کوئی ردعمل نہیں دکھاتے؟

کیوں ان غیر اخلاقی تقریبات کے برگزار ہونے پر اب تک خاموش ہیں؟

حالیہ برسوں خاص کر ایم بی ایس کے دور میں سعودی عرب کی جدیدیت (Modernization) اور مغرب پسندی(Westernization) کے منصوبوں کی خبریں شاہ فہد کے دور سے بھی زیادہ تیزی سے سننے میں آرہی ہیں۔

دنیا کے شوبز سے وابستہ اور سلیبریٹیز کی موجودگی کے ساتھ نائٹ کلب میں ڈانس اور گانے کی تقریبات کا انعقاد اس کی آخری مثال ہے۔ ’’موسم ریاض‘‘ نامی فیسٹول ہے ۔

اس حوالے سے ہم کچھ نکات کا یہاں بیان کریں گے۔

1.عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں ہوتے ہیں کہ سعودی عرب کا معاشرہ سو فیصد ایک مذہبی معاشرہ ہے جس میں ایک خاص اسلامی طبقہ فکر کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔

2 ۔ تیل کی وافر پیداوار کی وجہ سے شاہزادوں پر مشتمل متمول طبقہ جس کی طرز زندگی لبرل ،حاکم سیکولر اور مذہب برائے نام رہ گیا ہے ۔

دوسری طرف عربستان کا ایک چوتھائی حصہ خط فقر کی لکیر سے نیچے زندگی گزار بسر کرنے پر مجبور ہیں یعنی عربستان کی دولت اور ثروت کا زیادہ تر حصہ اشرافیہ اور شہزادوں کے ہاتھ میں ہے یہی وجہ ہے کہ اس آزاد طبقہ تمام فیصلہ سازی میں دخیل جو چاہئے کرے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے ۔

2. وہابی(مذہبی طبقہ) اور آل سعود کے تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ آخر کار سیاست میں عدم مداخلت کی شرط پر سعودی حکمران اور اعلیٰ ترین مذہبی ادارے ’’ہیئت کبار العلماء‘‘ میں غیر تحریری معاہدہ طے پایا۔ کہ ملکی باگ ڈور بادشاہت کے پاس رہے گی اور مذہبی امور اس ہیئت کے پاس ۔ذرا سی بھی خلاف ورزی کی صورت میں اسے خارج کیا جاتا ہے ۔

عبیکان جیسے عالم کا تلخ انجام سلفی درباری علماء کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس سے بھی اہم "ناصرالدین البانی" کا وہ منفی اور زیادہ موثر موقف ہے جس نے "سیاست نہ کرنے کو بہترین سیاست قرار دیا تھا " البانی بار بار سلفی علماء کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ جب تک لوگ عقیدتی لحاظ سے مضبوط نہیں ہوتے ہیں سیاسی معاملات پر کوئی بات نہیں کرنی ۔علماء کا کام لوگوں کے عقیدے درست کرنا ہے سیاست نہیں۔

3. چند روز پہلے سعودی عرب کے وزیر ثقافت بدر بن عبداللہ بن فرحان نے شدت پسند سلفی کے بعض حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگوشیوں کے بعد کہا:

ریاض فیسٹیول حرمین شریفین کی اقدار سے ہرگز متصادم نہیں۔ سعودی عرب ایک بہت بڑا ملک ہے ۔حرمین شریفین جزیرہ العرب کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔

لہٰذا اس طرح کی تقریبات کے انعقاد سے مقدس مقامات کی حرمت پامال نہیں ہوتی ۔

انہوں نے الشرق الاوسط کو دیئے گئے انٹریو میں مزید کہا: گرچہ اسلامی ثقافت سعودی عرب کی تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ مکہ اور مدینہ کے علاقوں تک محدود ہے، کیونکہ ریاض، جدہ اور طائف جیسے شہروں کو تاریخی نقطہ نظر سے کوئی تقدس حاصل نہیں ۔

ہم دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب جدید دنیا کے ساتھ اسلامی اقدار میں کوئی خلل نہیں آنے دیتے !!

4. " آزاد ویٹیکن "اور بین الاقوامی حقوق (سریر مقدس) کے تحفظ کا نظریہ پہلی بار 1929 کو اطالوی فاشسٹ آمر موسولینی نے پیش کیا تھا۔

موسولینی نے آزاد اٹلی کے بدلے آزاد ویٹیکن سٹی کو کیتھولک قوانین کے مطابق خودمختار ملک کا درجہ دے دیا تھا اس شرط پر که ویٹی کن جنگ میں غیر جانبداری رہے گا ۔

اسی طرح سلفیت اور آل سعود کے درمیان کشیدہ تعلقات کے اتار چڑھاؤ کے بعد عربستان سعودی کے اندرونی اور بیرونی امور میں عدم مداخلت کے بدلے بادشاہ نے وہابی درباری علماء کو حرمین شریفین کا اختیار سونپ دیا گیا ۔اس کے باوجود سعودی بادشاہت خاص کر بن سلمان خطرات سے نمٹنے کا واحد اور اخری نسخہ یہی سمجھتا ہے کہ عربستان کو ویٹیکن ازم کی طرز پر چلایا جائے تاکہ یہ شدت پسند طبقہ مشکلات کھڑی نہ کرے۔ویٹی کن سٹی (Vatican City) ایک خود مختار ریاست ہے جو اٹلی کے دارالحکومت روم کے اندر واقع ہے۔ (یہ کیتھولک عیسائی مذہب کے روحانی مرکز، یعنی پاپائے روم (پوپ) کی رہائش گاہ اور اس کے اداروں کا مرکز بھی ہے۔ ویٹی کن سٹی کو 1929 میں "لاتران معاہدے" کے تحت ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے چھوٹا خودمختار ملک ہے اور اس کا رقبہ صرف 44 ہیکٹر (110 ایکڑ) ہے۔ ویٹی کن میں دنیا کی سب سے مشہور مذہبی عمارتوں میں سے ایک، سینٹ پیٹرز بسلیکا بھی واقع ہے۔)

5. استکباری اور عالمی طاقتوں کی جانب سے مقدس مقامات کو ویٹی کن ازم کی طرز پر چلانے کا نظریہ میرے خیال میں سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا ۔اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو دیگر مقامات اور ملکوں جیسے قم مقدس اور نجف اشرف میں اس طرح کے اقدامات اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے چند سال قبل ایران کے اندر سے بھی اسی طرح کی آوازیں اٹھی تھیں ،لیکن اس کے اتنے منفی اور بھیانک نتائج نکلنے تھے ،جس کی وجہ سے اس صاحب پر ہر طرف سے تنقید ہوئی یوں فی الحال وہ آواز دب گئی۔ یقیناً حوزہ ہائے علمیہ کو ویٹی کن ائزیش کرنے کی سوچ دینی درسگاہوں کو سیکولرائزیش بنانے کا نیا حربہ ہے۔

بیدار رہیں!۔۔۔۔۔

نوٹ : اس تحریر کا بیشتر حصہ سید علی بطحائی کے مقالے سے لیا گیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .